غزل
مصائب کے اندھیروں میں بھٹکنا ہی نہیں آتا
غم و اندوہ کا بادل ہوں، برسنا ہی نہیں آتا
نہیں شکوہ کسی سے ہے، نہیں کوئی گلہ اپنا
ملے جو خار راہوں میں، الجھنا ہی نہیں آتا
تلاطم خیز موجوں سے گزرتی ہے مری کشتی
حوادث کے تھپیڑوں سے لرزنا ہی نہیں آتا
خوشی اور غم کے چہرے کو فقط اللہ جانے ہے
کسی کو اپنے بارے میں بتانا ہی نہیں آتا
نکھرنے سے بکھرنے تک، محض تھوڑی سی مدت ہے
انہی قسمت کے لمحوں کو گنوانا ہی نہیں آتا
رضائے رب کی چاہت میں، رہے خندہ جبیں بے باک
رفیقوں کو، رقبیوں کو، بھلانا ہی نہیں آتا
محمد شاہ نواز بے باک