محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہوجانا
(شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی)
محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہوجانا
متاع جاں کسی کو سونپ کرمجبور ہوجانا
ہماری بادہ نوشی پر فرشتے رشک کرتے ہیں
کسی کے سنگِ در کو چومنا، مخمور ہوجانا
قدم ہیں راہِ الفت میں تومنزل کی ہوس کیسی؟
یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہوجانا
یہاں تو سر سے پہلے دل کا سودا شرط ہے یارو!
کوئی آسان ہے کیا سرمد و منصور ہوجانا
بسا لینا کسی کو دل میں، دل ہی کا کلیجہ ہے
پہاڑوں کو تو بس آتا ہے جل کر طُور ہو جانا
مری کوتاہیوں نے تم کو بخشیں رونقیں کیا کیا
خفا ہو کر لَجانا، روٹھ کر کچھ دُور ہوجانا
مثالِ شمع اپنی ذات کو پِگھلانا پڑتا ہے
بہت مشکل ہے ہمدم ظُلمتوں کا نُور ہوجانا
نظر سے دور رہ کر بھی تقیؔ وہ پاس ہیں میرے
کہ میری عاشقی کو نَنْگ ہے مجبور ہوجانا